شہباز شریف کی ضمانت کا معاملہ، ججز ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے

شہباز شریف کی ضمانت کا معاملہ،  ججز ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی ضمانت کے حوالے سے خبر سامنے آئی ہے کہ دو ججز ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ ایک جج نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تو دوسرے کی جانب سے ضمانت کو مسترد کر دیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ نواز کے صدر میاں محمد شہباز شریف کی لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی گئی۔ سماعت کے بعد ججز کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی جس میں ایک جج کی جانب سے شہباز شریف کی ضمانت کو منظور کرلیا گیا تھا جبکہ دوسرے جج کی جانب سے ضمانت مسترد کر دی گئی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اب شہباز شریف کی ضمانت کھٹائی میں پڑ گئی ہے اور اس کیس کا فیصلہ ریفری جج سے کروایا جائے گا۔ شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست پر جسٹس اسجد جاوید کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھ دیا گیا۔ جاری کی گئی رپورٹ میں دو الگ الگ ججز نےدو مختلف فیصلے کر دیے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ درخواست اب چیف جسٹس کو ارسال کر دی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ اب کوئی ریفری جج ہی کریں گے۔ ہم نے شہباز شریف کی ضمانت مشاورت سے منظور کی تھی مگر جسٹس اسجد جاوید نے کہا تھا کہ وہ اختلافی نوٹ لکھیں گے۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کی جانب سے لکھا گیا ہے کہ شہباز شریف کو آشیانہ کیس کی بجائے اثاثہ کیس میں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ نیب کی جانب سے انکوائری التوا میں کیوں رکھی گئی۔ کوئی ایک بھی ٹرانزیکشن شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں کی گئی۔ نیب یہ مان چکی ہے کہ شہباز شریف کے ساتھ شریک ملزمان کے نام پر ٹی ٹی آئیں تھیں۔ تو پھر بنا ثبوت کے کسی شخص کو قصور وار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ جب تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہو تب تک کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

دوسری جانب جسٹس اسجد جاوید کی جانب سے لکھا گیا کہ وہ چیمبر میں ہی شہباز شریف کی ضمانت کو مسترد کرنے کا عندیہ جاری کر چکے تھے مگر پھر بھی ساتھی جسٹس کی جانب سے شہباز شریف کی ضمانت کو منظور کرلیا گیا۔ میرے صاف انکار کے باوجود بھی ساتھی جج نے ضمانت کی منظوری کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ اب چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔

جسٹس اسجد کی جانب سے لکھا گیا کہ سینئر ساتھی جج نے شارٹ آرڈر لکھ کر مجھے دستخط کرنے کے لئے بھجوا دیے۔ شارٹ آرڈر تو بنتے ہی نہیں تھے۔ اس طرح کے افسوسناک واقعے کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ڈویژن بینچ کے سربراہ سینئر ساتھی جج سے ایسی توقع نہیں کی گئی تھی۔

ان کا اختلافی نوٹ میں لکھنا تھا کہ گواہوں کے بیانات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شہباز شریف بھی اس کیس میں ملوث ہیں۔ شہباز شریف کی جانب سے جعلی ٹی ٹیز اور بینک اکاؤنٹس کی مدد سے جائیدادیں بنائی گئیں۔ ان کی جانب سے اپنے خاندان اور نامعلوم افراد کے نام پر جائیدادیں بنائی گئیں۔ ان کے اثاںے ان کی معلوم ذرائع سے مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ یہ تمام وہ شواہد ہیں جو شہباز شریف کا اس میں ملوث ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ ان ثبوتوں کی روشنی میں شہباز شریف کسی بھی ضمانت کے حق دار نہیں ہیں اس لئے ان کی ضمانت کو مسترد کردیا گیا تھا۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *