اس کی رپورٹ کے مطابق کام کی جگہوں پر درکار ٹیکنالوجی کی صلاحیت کی نسبت بچے ٹیبلٹس اور سمارٹ فونز پر مختلف نوعیت کی مہارت حاصل کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کے سکولوں میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی جس طرز پر پڑھائی جاتی تھی اس میں کی جانی والی تبدیلیاں اس زوال کو بہتر طور پر واضح کرتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لوگوں کے زیرِ استعمال آلات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔
آسٹریلیا کے نیشنل اسیسمنٹ پروگرام کے تحت بچوں کے مختلف گروہوں میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کو جانچا گیا۔
ایک گروہ پرائمری سکول سے نکلنے والا تھا جبکہ دوسرا اپنے سیکینڈری سکول کے چوتھے سال میں تھا۔ اس مطالعے میں ساڑھے دس ہزار بچوں نے حصہ لیا۔
اس مطالعے میں سنہ 2011 اور سنہ 2014 کے دوران طلبہ کی ڈجیٹل تعلیم کا تقابل کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق: ’جب پچھلے دور کے بچوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا تو آئی سی ٹی کی تعلیمی کارکردگی میں بڑے پیمانے پر زوال دیکھا گیا۔‘
اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2014 کے گروہ میں میں شامل 16 برس کی عمر کے طلبہ کی کارکردگی کسی بھی پچھلے گروہ سے کم تھی۔
رپورٹ کے مطابق کارکردگی میں یہ زوال پریشان کن ہے اور انتہائی توجہ چاہتا ہے۔
امتحان کے دوران طلبہ نے زیادہ سے زیادہ موبائل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ آئی سی ٹی کی تعلیم کے مطابق صلاحیتوں کا استعمال کم سے کم کر رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جو بچے ٹیلبٹس اور دیگر آلات استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ قابل ہیں۔
انٹرنیٹ پر خرید و فروخت ہونے والے سکّے ’کرپٹو کرنسی‘ نے ایک نئی ایپ متعارف کرائی ہے جس سے پیدل چلنے والے یہ کرنسی کما سکتے ہیں۔
کمپیوٹر کے ذریعے پیدا کی جانے والی ’بِٹ کوائنز‘ یا ان جیسے دیگر سکّوں کے برعکس آپ ’بِٹ واکنگ ڈالر‘ چل پھر کر کما سکتے ہیں۔
اس کے لیے اب آپ ایک نئی ایپلیشن یا ایپ اپنے فون پر ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے ہیں جو صارف کے قدموں کا شمار کرتی ہے اور تقریباً ہر ایک ہزار قدم کے بعد آپ ایک بِٹ واکنگ ڈالر یا بی ڈبلیو ڈالر کے حقدار ہو جاتے ہیں۔
ملائشیا (نیوز ڈیسک ) پاکستان جنوبی کوریا کو شکست دے کر جونیئر ایشیا ہاکی کپ کے فائنل میں پہنچ گیا جس میں اس کا مقابلہ روایتی حریف بھارت سے ہوگا۔قومی ہاکی ٹیم جنوبی کوریا کو شکست دے کر جونیئر ایشیا ہاکی کپ کے فائنل میں پہنچ گئی، سیمی فائنل میں پاکستان اور کوریا کا میچ مقررہ وقت تک 2-2 گول سے برابر رہا تاہم قومی ٹیم نے جنوبی کوریا کو پنالٹی شوٹ پر 7-8 سے شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔ جونیئر ایشیا ہاکی کپ کے فائنل میں کل پاکستان کا مقابلہ روایتی حریف بھارت سے ہوگا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی محمد حفیظ نے بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں سپاٹ فکسنگ میں ملوث سزا یافتہ فاسٹ بولر محمد عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ چٹاگانگ نے بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں محمد عامر اورمحمد حفیظ سے معاہدہ کیا تھا لیکن محمد حفیظ نے محمد عامر کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔
محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ یہ ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ملک کی عزت اور ساکھ سے ہے، اور وہ کسی ایسے کھلاڑی کے ساتھ نہیں کھیل سکتے جس نے ملک کو بدنام کیا ہو۔
محمد حفیظ نے کہا کہ اگر کسی دوسری ٹیم نے انھیں پیشکش کی تو وہ بنگلہ دیشی پریمئر لیگ کھیلیں گے۔
محمد حفیظ نے اس سوال پر کہ آپ اس وقت کیا کریں گے جب محمد عامر کو پاکستانی ٹیم میں منتخب کر لیا جائے گا تو انھوں نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ یہ وقت بتائے گا ۔
محمد عامر ان تین کرکٹروں میں شامل ہیں جنھیں سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے پر سزا ہوئی تھی۔ تینوں کرکٹر آئی سی سی کی جانب سے پابندی کی مدت ختم ہونے کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس آ چکے ہیں ان میں سے محمد عامر باقاعدہ فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کر چکے ہیں جبکہ سلمان بٹ اور محمد آصف کو واپڈا نے اپنی ٹیم میں شامل کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ محمد عامر کے معاملے میں ہمیشہ سے نرم گوشہ رکھے ہوئے ہے اور اس بات کے امکانات بھی روشن ہیں کہ انھیں بہت جلد پاکستانی ٹیم کا حصہ بنا دیا جائے۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے بیشتر کرکٹر ان سزا یافتہ کھلاڑیوں کی ٹیم میں واپسی کے خلاف ہیں تاہم ان میں سے محمد حفیظ وہ پہلے کرکٹر ہیں جنھوں نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
نواک جوکووچ نے رافیل نڈال کو ٹینس کے اے ٹی پی ورلڈ ٹوور فائنلز کے سیمی فائنل مقابلوں میں باآسانی شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی ہے اور وہ اب ان کے پاس مسلسل چوتھی بار یہ ٹائٹل جیتنے کا موقع ہے۔
سربیا سے تعلق رکھنے والے نواک جوکووچ نے ہسپانوی ٹینس سٹار رافیل نڈال کو چھ، تین اور چھ، تین سے شکست دے کر دونوں کھلاڑیوں کے درمیان کھیلے گئے میچوں میں جیت کے تناسب کو 23-23 سے برابر کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر ششانک منوہر اس وقت دبئی میں ہیں جبکہ جائلز کلارک بھی ہفتے کے روز دبئی پہنچ رہے ہیں جہاں وہ دونوں کرکٹ بورڈز کے سربراہان سے ملاقات کریں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت صرف پاکستان اور انگلینڈ کا آخری ون ڈے انٹرنیشنل دیکھنے کے لیے دبئی آئے ہیں۔
’انھیں پتہ چلا ہے کہ ششانک منوہر بھی آئی سی سی کے صدر کے عہدے پر نامزدگی کے بعد دبئی آئے ہوئے ہیں اگر انھوں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ ان کی بات ضرور سنیں گے لیکن پاکستان نے اپنی بات واضح کر دی ہے کہ پاکستانی ٹیم اپنی ہوم سیریز بھارت جا کر نہیں کھیلے گی۔‘
شہریار خان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے صدر جائلز بھی پاک بھارت سیریز کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور انھوں نے دونوں کرکٹ بورڈز سے رابطہ بھی کیا ہے۔
شہریارخان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جائلز کلارک پر بھی یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ انھیں قائل کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اب یہ معاملہ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
’جائلز بھی پاک بھارت سیریز کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور انھوں نے دونوں کرکٹ بورڈز سے رابطہ بھی کیا ہے‘
شہریار خان کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے ٹوئٹر پر جس طرح پاکستانی ٹیم کے بارے میں شک وشبہات ظاہر کیے اور پھر اپنے ٹوئٹس ہٹا دیے پاکستان کرکٹ بورڈ یہ معاملہ آئی سی سی میں اٹھائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق اور یونس خان کو کرکٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے بورڈ آف گورنرز میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بورڈ کا خیال تھا کہ رمیز راجہ اور وسیم اکرم کو بورڈ آف گورنرز میں شامل کیا جائے لیکن چونکہ یہ دونوں اب پاکستان سپر لیگ کے سفیر ہیں لہٰذا مصباح الحق اور یونس خان کو بورڈ آف گورنرز میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مصباح الحق اور اظہرعلی کو کرکٹ بورڈ کی کرکٹ کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ڈیورچرڈسن نے پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان شارجہ میں ہونے والے تیسرے ون ڈے میں پاکستانی بیٹسمینوں کے رن آؤٹ کو کھیل کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس بارے میں کسی بھی قسم کے شک وشبہے کو مسترد کردیا ہے۔
ڈیوڈ رچرڈسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں شارجہ کرکٹ کے بارے میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ شارجہ میں کھیلا گیا تیسرا ون ڈے اسوقت سے شہ سرخیوں میں ہے جب انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان نے اس میچ میں پاکستان کی شکست کو مشکوک قرار دیتے ہوئے پاکستانی بیٹسمینوں کی کارکردگی خاص کر تین رن آؤٹ کے بارے میں ٹوئٹس کیے تھے جو انھوں نے کچھ دیر بعد ہی اپنے صفحے سے ہٹا بھی دیے تھے۔
مائیکل وان کے ٹوئٹس کے بعد لندن کے اخبار ڈیلی میل میں ایڈ ہاکنز نے اپنے مضمون میں تیسرے ون ڈے کو مبینہ طور پر مشکوک قرار دیتے ہوئے یہ کہا کہ آئی سی سی کا اینٹی کرپشن یونٹ اس میچ کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔
آئی سی سی نے اس بارے میں تردید یا تصدیق کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا اس بارے میں شدید ردِ عمل سامنے آچکا ہے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کہہ چکے ہیں کہ وہ آئی سی سی میں اس بارے میں احتجاج کرینگے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ وقار یونس نے بھی میچ فکسنگ کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں اپنے کھلاڑیوں پر مکمل بھروسہ ہے۔
کُلاچ سے کیلاش ایک قسط وار سفرنامہ ہے۔ کراچی سے وادی کیلاش تک کا یہ سفر ہمارے ساتھی شرجیل بلوچ نے چند منچلے خواتین و حضرات کے ساتھ طے کیا ہے۔ راستہ تو خوبصورت ہے ہی، مگر راہی بھی کم نہیں۔ یہ سفر نامہ ہر اتوار کو قسط وار شائع کیا جاتا ہے۔ پیش ہے اس سلسلے کی آخری قسط۔۔۔
مقامی لوگ اور سیاح گروپس کی شکل میں پہاڑ کے اوپر جا رہے ہیں۔ اوپر جاتی پتھریلی سیڑھیاں ہوں گی کوئی سو ڈیڑھ سو۔ چڑھتے چڑھتے جہاں سانس رکتی ہم آس پاس بنے کچے اور تاریک گھروں میں جھانکنے لگتے۔ ان کچے آنگنوں میں مٹی اور پلاسٹک کے بدنما کھلونوں سے کھیلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے خوبصورت میلے کچیلے بچے ہمیں دیکھ کر پھرتی سے گھروں کے اندر گُھس جاتے۔
ان کا رویہ بالکل غاروں میں رہنے والوں جیسا تھا۔ اوپر پہاڑ پر سیمنٹ کا پلیٹ فارم تھا جس کی پکی چھت نے تیز دھوپ کو آنےسے روکا ہوا تھا۔ نیچے سو دو سو رنگ برنگ مرد عورتیں بچے بوڑھے لڑکے لڑکیاں اور انکے بیچ دو ڈھول والے۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور پشتون علاقوں کے ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کی دھن پر دل خود بخود رقص کرنے لگتا ہے۔ مگر اس ڈھول کی تھاپ کسی جنگلی قبیلے کی تھاپ جیسی تھی۔
ڈُمبک۔ ڈُمبک۔ ڈُمبک۔ ڈُمبک کی مسلسل آواز اور اس آواز میں مسلسل شور مچاتے ہوئے لڑکے لڑکیاں۔ تین تین چار چار کی قطاروں میں ایک دوسرے کے شانوں پر ہاتھ رکھے کندھے سے کندھا ملائے۔ نیم دائرے میں پہلے دائیں اور پھر واپس بائیں مڑتے اور پھر بکھر جاتے۔ شکاری ان کے اردگرد پوزیشنیں سنبھالے کھڑے تھے۔ ہرایک کی خواہش اور کوشش یہی تھی کہ کوئی بھی پری چہرہ ان کے نشانے سے بچ کر نہ جائے۔
بچے اور بچیاں ان ناچتی ہوئی پریوں کے درمیان بے خبر اپنی دنیا میں مست املی والی انگلیاں چاٹنے میں مگن تھیں۔ میرے اطراف ہر چہرہ پری چہرہ تھا۔ مگر بےگانہ اور بالکل لا تعلق۔ ان کی مسکراہٹیں ان کا رقص ان کی نگاہیں صرف ایک دوسرے کے لیے تھیں۔
اس میلے کا کیا نام ہے؟ ہمت کر کے میں نے ساتھ کھڑے نوجوانوں سے پوچھا۔ ان کی سفید چترالی ٹوپیوں میں لگے ہوئے خوبصورت پر دھوپ میں چمک رہے تھے۔آپ پہلا دفعہ آیا ہے؟ ایک نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔ جی۔ میں نے بات بڑھتے دیکھی۔ بس یہ امارہ عید ہے۔ اس نے اپنی اردو میں مجھے سمجھایا۔ اور منہ پھیر کر دوست کی طرف متوجہ ہوگیا۔ میں کچھ دیر اس کی توجہ کا منتظر رہا۔ پھر مڑ کر بھیڑ میں اپنے لوگوں کو ڈھونڈنے لگا۔ آدھے سے زیادہ لوگ جا چکے تھے باقی بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ہو گیا کام؟
میلہ چھوڑ کر پہاڑ کے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر میرے آگے ایک ادھیڑ عمر سیاح ایک نوجوان سیاح کو یہاں کے رسوم ورواج بتاتا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے ہم دائیں ہاتھ پر بنے ایک پتھریلے احاطے میں داخل ہوگئے۔ جہاں سے نیچے دور تک وادی میں پھیلے ہوئے لکڑی کے مکانات اور کھیت نظر آ رہے تھے۔ میرے سامنے ایک بڑے سے پتھر پر خون کے خشک چھینٹے پڑے تھے۔ سامنے چٹان کے اوپر کالی اور پرانی لکڑی کے بنے ہوئے چار خدا نیچے وادی میں جھانک رہے تھے۔ یہ ان کی عبادت گاہ تھی۔
لکڑی کے ان شہتیروں کو سامنے سے گھوڑوں کی شکل میں تراشا گیا تھا۔ وہاں رک کر میں نیچے وادی میں جھانکتا رہا۔اور پھر وحشت زدہ ہو کر کچھ لمحوں بعد باہرنکل آیا۔ ایک 14 پندرہ سالہ لڑکا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہاتھ میں کالے بالوں والی کوئی چیز اٹھائے اوپر آ رہا تھا۔یوں لگا جیسے بکرے کا سر ہوگا۔ مگر وہ اتنا بڑا نہیں ہوتا۔ کوئی سینگ کوئی آنکھ، ناک، کان نظر نہیں آئے۔وہ بالوں بھری چیز بیل کے سر جتنی ہوگی۔ اس کا چمڑا کہیں کہیں خشک ہو کر پیلا ہو چکا تھا۔وہ کیا تھا کچھ سمجھ نہیں آیا۔
لڑکا میرے قریب سے گزر کر اس عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔اس نے ایک بار مڑ کرمجھے دیکھا۔ پھر بنا کچھ کہے۔ ان چوبی خداؤں کے پیچھے سے ایک لکڑی کے تختے کو ہٹایا۔ نیچے سیمنٹ کا ٹینک تھا۔اس نے نہایت ادب اور احتیاط سے وہ کالے بالوں والی چیز اس میں رکھ کر تختہ دوبارہ جمایا۔اور تیزی سے مڑ کر میرے قریب سے گزرنے لگا۔
یہ تم نے کیا کیا؟ میں نے مشکل سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ہم نے اپنا دستور کیا۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا ۔نیچے رقص کرتے کیلاشوں میں گم ہوگیا۔ تجسس نے میری گردن پیچھے موڑی۔ مگراس بار ہمت ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ لکڑی کے چاروں خدا مجھ پر طنزیہ مسکرا رہے تھے۔
چار بجے تک سب واپسی کے لیے تیار تھے۔ پیدل چلتے ہوئے ہم گاؤں کی سرحد سے دور ہوتے جا رہے تھے۔اور رمبور میں رکی ہوئی نخبت ہمیں جاتا دیکھ کر کہیں چھپ گئی تھی۔ وہ شاید اپنے آنسو چھپا رہی ہوگی۔ میلے کی واپسی ہمیشہ اداس اور تھکن زدہ ہوتی ہے۔ مگر عجیب سی بات تھی کہ گاؤں سے دور ہوتے ہوئے ہمارے اعصاب ہلکے ہوتے جا رہے تھے۔ جیپ چلاتے ہوئے ڈرائیور کے چہرے پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ تھی جیسے کہ رہا ہو ۔ دیکھ آئے میلہ ؟ ہوگئے خوش؟
اس بستی کا غیر معمولی بھاری اثر سب پر ہوا تھا میں دوران سفراس بھاری پن کی وجہ سوچتا رہا۔
اگرمیں یہ کہوں کہ کراچی ایک بھنور جیسا شہر ہے۔ لاہور ایک یار باش جگا ہے۔ ہرن مینار ایک بوڑھی دلہن ہے۔ کھیوڑہ سکندرِ اعظم کے تحفہ ھے۔ کٹاس راج ایک طلسم کدہ ہے۔ایبٹ آباد ایک لارڈ صاب ہے۔ دیر بالا جیسے کوئی خوبصورت پہاڑی دوشیزہ۔ تو رمبور ایک ایسا پرستان ہے۔ جہاں پریاں اور پری زاد صدیوں سے اپنے آپ میں خوش اور مگن ہیں انھیں آدم زادوں سےکوئی بیر نہیں۔ مگر ان کا بغیر اجازت پرستان میں گھس آنا۔ ان کو تعجب کی نظروں سے گھورنا۔ اور ان کی ذاتی زندگیوں میں دخل دراندازی کرنا۔ یہ سب ان پریوں کو بالکل پسند نہیں۔
یوں لگا جیسے آدم زاد بھی کافی وقتوں سے اس پرستان میں نقب لگا رہے ہیں۔ مگر اب پریاں اور پری زاد دونوں بہت محتاط ہو چکے ہیں۔ وہ آدم زادوں کی نیتوں کو اچھی طرح جان گئے ہیں۔ مگر مہذب اتنے ہیں کہ بنا کسی کو جھڑ کے۔ بنا ٹوکے۔اپنی شناخت اور خوبصورتی بچا رہے ہیں۔ وہ یہ راز جانتے ہیں کہ کیسے اپنے خاموش رویّے کے حصار اور لا تعلقی کو اپنی ڈھال بنا کر ان آدم زادوں کو اپنے آپ سے دُور رکھنا ہے ۔ ان کا سرد رویہ ہمارے اعصاب شل کرچکا تھا۔