بھارت میں کالی پھوپھوندی نامی وبا زور پکڑنے لگی، مریضوں کی جان بچانے کے لیے ان کی آنکھیں نکالنے کا سلسلہ جاری

بھارت میں کالی پھوپھوندی نامی وبا زور پکڑنے لگی،  مریضوں کی جان بچانے کے لیے ان کی آنکھیں نکالنے کا سلسلہ جاری

بھارتی میڈیا کے مطابق کورونا وائرس کی بھارت میں تباہ کاریوں کے بعد ایک نئی بیماری کالی پھوپھوندی انسانی جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق بھارتی میڈیا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کی وبا سے صحتیاب ہونے والے ہزاروں افراد کالی پھوپھوندی نامی بیماری کی وجہ سے اپنی آنکھیں کھو چکے ہیں۔ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باعث بھارت میں پہلے سے ہی لاکھوں اموات ہو چکی ہیں۔ تاہم ایک نئی بیماری کالی پھوپھوندی سے متاثرہ افراد کی آنکھیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ کالی پر پابندی سے مریض کی جان بچانے کا یہی علاج ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی ریاست راجستھان کے ایک سرکاری ہسپتال میں موجود ڈاکٹر اکشے نائر کی جانب سے کالی پھوپھوندی کے متعلق تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ راجستان کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر اکشے نائر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کالی پھوپھوندی میں مبتلا مریضوں کی جان بچانے کے لیے آپریشن کر کے ان کی ایک یا دونوں آنکھوں کو نکال دیا جاتا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس صرف یہی حل ہوتا ہے جس سے اس مرض میں مبتلا مریض کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اکشے نائر کا کہنا تھا کہ کالی پھوپھوندی سے حسم کے متاثرہ حصے کو کاٹ کر نکالنا ہوتا ہے۔ اگر اس بیماری سے متاثرہ مکمّل حصّہ مثلا جلد، اعصاب اور آنکھ کے پپوٹے کو نہ نکالا جائیں تو یہ مرض مریض کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے جس کے بعد مریض کی جان بچانا ناممکن ہو جاتا ہے۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کی رپورٹ ہونے سے پہلے بھی اس بیماری کے 3،4 کیسز سامنے آئے تھے۔ تاہم اب ہر روز بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر 6 نئے مریض سامنے آرہے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان میں ہی کالی پھوپھوندی میں مبتلا مریضوں کی تعداد پندرہ سو ہو چکی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر تعداد بیس سال سے کم عمر والے بچوں کی ہے۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *