ذرائع کے مطابق ایک آسٹریلوی شخص وائٹ شارک کے حملے میں تقریباً موت کے منہ سے واپس آۓ تھے ان پر حملے کے دوران شارک کا دانت انکے سرفنگ بورڈ میں پھنس گیا تھا انھیں وہ دانت اپنے پاس رکھنے کی اجازت مل گئی ہے
تفصیلات کے مطابق بتیس سالہ کرس اپریل 2015 میں سمندر کی موجوں پر تیرتے ہوۓ شارک کا شکار ہوۓ تھے شارک اٹھارہ فٹ لمبی تھیکرس بلوئز نے بتایا کہ ’اس نے مجھے جھٹکا دیا اور پھر تھوڑی دیر میرے ساتھ کھیلنے کے بعد میری ٹانگ کاٹ کر لے گئی۔‘
جس کے بعد وہ دس روز تک کوما میں رہے تھے۔
کرس بلوئز کو ان کے دو دوست شارک حملے کے بعد ساحل پر لے کر آئے جہاں انھیں ابتدائی طبی امداد مہیا کی گئ اب وہ ایک ٹانگ سے سرفنگ کرتے ہیں
جب شارک نے ان پر حملہ کیا تو شارک کا ایک دانت ان کے سرفنگ بورڈ میں پھنس گیا۔
گرس بلوئز وہ دانت اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن وہ مجاز نہیں تھے کیونکہ قانون کی رو سے کسی شہری کو ایسی نسل کے جانور کے کسی حصے کو اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے جنھیں معدومیت کا خطرہ لاحق ہو۔
انھوں نے کہا ’نہ تو میری ٹانگ مجھے مل رہی ہے اور نہ شارک کو اس کا دانت۔‘
لیکن اب کرس بلوئز کو اجازت مل گئی ہے کہ وہ حملہ آور شارک کا دانت اپنے پاس بطور یادگار رکھ سکتے ہیں۔
کرس بلوئز کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہت بار حکام شارک کا دانت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ جب ایک مقامی سیاستدان نے کرس بلوز کو قانون میں رعایت دلوا کر وہ دانت ان کے حوالے کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اس قانون کے تحت کسی کو چھوٹ دی گئی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف پرائمری انڈسٹریز کے جنوبی آسٹریلیا کے وزیر ڈیوڈ باشم نے بتایا ’کرس بہت مشکل وقت سے گزرے ہیں اور میں چاہتا تھا کہ ہم اس کا کچھ کریں، ہم یہ ہی کچھ کر سکتے تھے۔‘
کرس بلوئز کہتے ہیں کہ وہ شارک کا دانت گھر میں ایک ڈبے میں رکھتے ہیں اور جب کبھی وہ ترغیبی لیکچر کے لیے جاتے ہیں تو وہ اس کو ساتھ لے کر جاتے ہیں۔