طالبان نے اعلان کیا ہے کہ جب تک امریکا کا انخلا مکمل نہیں ہوجاتا وہ افغانستان کے حوالے سے کسی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ‘امریکی انخلا 11 ستمبر کو مکمل ہوگا جس کہ وجہ سے افغان کابل میں قائم افغان حکومتی حلقوں میں ایک اضطراب ہے کیونکہ امریکی جا رہے ہیں، نیٹو فورسز بھی ان کے ہمراہ رخصت ہوں گی
اشرف غنی جو مختلف فارمولے شراکتِ اقتدار کے لیے دے رہے تھے، سب دھول مٹی ہوگئے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں افغان امور کے ماہر مائیکل کوگل مین نے ایک بڑا ہی دلچسپ سوال پوچھا کہ افغان طالبان اب شراکتِ اقتدار کے لیے بات چیت کریں گے؟ یا پھر مکمل اقتدار کے لیے قبضہ؟امریکا نے جس انداز میں انخلا کا اعلان کیا ہے اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہم جا رہے ہیں تم آجاؤ اور دوحہ معاہدے میں جو ضمانتیں دی ہیں ان پر عمل کرو۔ افغانستان میں جو کرنا ہے وہ تم جانو اور افغان جانیں، ہماری بس ہے۔ وہی روزہ جانے اور خان جانے یا جٹ جانے اور بجو جانے والی دیسی مثال ادھر فِٹ ہوتی۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین نے بھی اہم بیان دیا ہے۔
سینیٹر جیک ریڈ نے کہا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم پاکستان میں ان کے محفوظ ٹھکانے ختم نہیں کرا سکے شکر ہے طالبان کے پاس ارطغرل دیکھنے کا وقت نہیں تھا اگر ترکی کا نام سنتے وہ بھی ڈھیر ہوجاتے تو ہم اک نئے رولے میں پھنس جاتے۔ ہمیں اپنے گھر میں ویسے ہی کئی مسائل کا سامنا ہے کہ اس نئی ابھرتی صورتحال کو دیکھنے کی شاید ہی کسی کو فرصت ملے