ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن کو مزید کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کے نتائج میں رشوت کے عوض مبینہ تبدیلی کے خلاف دائر کیے گئے کیس کی سماعت کی گئی۔ سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس ججز جسٹس ذوالفقار خان اور جسٹس سلیم جیسر تھے۔ کیس کی سماعت کے اختتام پر عدالت کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن کو اشتہارات کے اجزاء، امتحانات اور انٹرویوز لینے سے روک دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق عدالت کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی سرزنش کی گئی اور کہا گیا ہے کہ آپ کو اپنی پالیسیز کے متعلق آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی آپ کو امتحانات کے انعقاد اور نتائج کے اجراء کے طریقہ کار کے متعلق کوئی آگاہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران جج نے چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن سے پوچھا کہ آپ امتحانات کے نتائج پبلک کیوں نہیں کرتے؟ خواہ کسی امیدوار کے مارکس صفر ہی کیوں نہ ہوں مگر ان کو سامنے لایا جانا چاہیے۔
چیئرمین سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ ہم تمام امیدواروں کو کاربن کاپی فراہم کرتے ہیں جس سے وہ اپنے مارکس کی نشاندہی خود کرتے ہیں۔ جج کی جانب سے کہا گیا کہ یہ طریقہ اور یہ پالیسی کس نے بنائی؟ جج نے حکم جاری کیا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن جلد از جلد امتحانات میں شفافیت کا طریقہ کار بنا کر داد میں پیش کرے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس ذوالفقار خان کا کہنا تھا کہ قوم اور ملک کے مستقبل کے معماروں کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے حکام نے ہائی کورٹ سے دو ماہ کا وقت طلب کیا ہے جس کی منظوری عدالت کی جانب سے دی گئی ہے۔