50 سال قبل چھڑنے والی اسرائیل اور عربوں کی تہلکہ خیز جنگ کے اثرات آج بھی اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ موجود ہیں سالہا سال گزر گئے لیکن عرب خطہ عدم استحکامی کا شکار رہا ساڑھے سات لاکھ فلسطینوں کو سرزمین سے بے دخل کر کے اسرائیل کا وجود عمل میں لایا گیا اور پورا عالم اسلام خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہا
چند روز پہلے کا واقعہ جذبات انگیز ثابت ہوا مسلمانوں کے مقدس ترین مقام مسجد اقصی میں یوم القدس کے روز اسرائیلی فوج نے غیرانسانی سلوک کرتے ہوئے نمازیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس نے ایک بار تو امت مسلمہ کا لہو گرما دیا اس شر انگیز واقعے کے بعد مسلم حکمرانوں کے مذمت سے بھرپور بیانات سامنے آئے ترکی کے صدر نے چند مذمتی الفاظ بول کر اپنا حق ادا کردیا پاکستان کے وزیراعظم اور دیگر ممالک کی جانب سے پر زور مذمت کی گئی لیکن حاصل کیا ہوا؟ ایک مخصوص راگ الاپنے کے بعد سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہو گئے
اسرائیل کی یہ سفاکی دیکھتے مجھے اک عیسائی پادری کے الفاظ یاد آ گئے جس نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے نئے صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے مسلمانوں پر ڈھائے مظالم کی فہرست بہت طویل ہے مسلمانوں کو اپنی بقاء کے لیے صلاح الدین ایوبی چاہیے
مسلم ممالک کی غفلت ملاحظہ کیجیے مسلم امہ کا تیسرا اہم ترین اور مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس گذشتہ پینسٹھ برسوں سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تسلط میں ہے اور مسلم دنیا کے حکمران خواب غفلت میں ہیں 53 مسلمان ریاستوں کی 20 لاکھ مسلح افواج میں ایک صلاح الدین ایوبی کا جانشین نہیں جو قبلہ اول کی آزادی کے لیے میدان میں آئے
ہم اکثر سوال کرتے ہیں کہ مغربی دنیا کیوں خاموش ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ عرب دنیا کیوں غفلت کا شکار ہے اگر عرب ممالک فلسطینی ریاست کے قیام میں دلچسپی رکھتے تو اردن خود فلسطین کے حصے پر قابض نہ ہوتا عربوں کو فلسطین سے ذیادہ ایران کی فکر رہی اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی جانب سے بھی کبھی فلسطین کی آزادی کے لیے دباؤ نہیں ڈالا گیا
یہ سلسلہ محض فلسطین اور کشمیر کی دل خراش حکایات پر مبنی نہیں ہےمسلمان جہاں کہیں بھی اقلیتی گروہ میں ہیں ظلم و جبر کا شکار رہے ہندوستان کے سینکڑوں فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق کیوں نہیں دیکھا گیا کہ وہ کس مکتبہ اور مسلک سے وابستہ تھے ؟؟ عراق ، شام ، فلسطین ،افغانستان برما اور کشمیر کے علاقوں میں شہید ہونے والے لاکھوں مسلمانوں سے کبھی انکی مسلکی پہچان کیوں نہیں پوچھی گئی ؟؟ عراق افغانستان یمن اور شام میں مولی گاجر کی طرح کٹنے والے مسلمانوں کے لیے کبھی کسی نے کیوں آواز بلند نہیں کی ؟؟؟ شامی بچے کی صدا “میں اپنے رب کو سب بتاؤں گا” نے کسی مسلم غیور کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا ، یوم القدس پکارتا رہا اور مسلم غیور خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے
حقیقت بس اتنی سی ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ایسے جیتے ہیں کہ زندگی شرمسار ہوجاۓ۔۔۔ تختوں پر بیٹھی زندہ لاشیں ظالم کو تسلیم کرتی جارہی ہیں خونِ مسلم بہہ رہا ہے اور اس وقت تک بہتا رہے گا جب تک مسلم امہ نیل کے ساحل سے کاشغر تک ایک نہیں ہوجاتی بقول اقبال
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے